افغانستان کا کہرام

| تحریر: لال خان |

22 دسمبر کی شام تک آنے والی اطلاعات کے مطابق طالبان ’سنگین‘ کے بیشتر حصے پر قابض ہو چکے ہیں اور افغان فوج شدید مشکلات سے دو چار ہے۔ سنگین، اسٹریٹجک حوالے سے افغانستان کے صوبہ ہلمند کا اہم شہر ہے ۔افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کو ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا ہے۔ 9 ہزار امریکی فوجیوں سمیت تقریباً 13 ہزار نیٹو فوجی ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں لیکن پہلے قندوز اور اب سنگین پر طالبان کا قبضہ زمینی حقائق کو بالکل واضح کر رہا ہے۔ امریکی سامراج بے بس نظر آتا ہے۔

battle afghanistan us imperialism taliban  (2)
افغان فوج سنگین سے پسپائی کا شکار ہے

’گارڈین‘ نے ہلمند کے ڈپٹی گورنر محمد جان رسول یار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سوائے افغان فوج کی پوسٹوں کے، پورا شہر طالبان کے قبضے میں ہے۔ ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ محمد کریم اٹل کے مطابق صوبے میں اس سال ہلاک ہونیو الے افغان فوجیوں کی تعداد 2 ہزار ہو چکی ہے ۔اسی طرح سنگین کے ڈسٹرکٹ پولیس کمانڈر محمد داؤد نے میڈیا کو بتایا ہے کہ طالبان نے شہر کو باقی صوبے سے بالکل کاٹ دیا ہے اور خوراک اور اسلحے کا زخیرہ ختم ہو رہا ہے۔
سنگین پر حملے سے ایک دن قبل، سوموار کو طالبان کے خود کش بمبار نے کابل کے نزدیک بگرام ائیرپورٹ پر حملہ کر کے چھ امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اگست کے بعد نیٹو افواج پر یہ سب سے خونریز حملہ تھا۔ سوموار کی رات ہی کابل پر تین راکٹ بھی داغے گئے۔ پچھلے ہفتے شائع ہونے والی پینٹاگان کی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ طالبان مستحکم ہو رہے ہیں اور سکیورٹی کی صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ہلمند کے ہاتھ سے نکل جانے والے علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لئے امریکی سپیشل فورسز تعینات کی جارہی ہیں۔سنگین کے مضافاتی ضلع گیریشک پر بھی طالبان چڑھائی کر رہے ہیں۔ اگر ان اضلاع کا مکمل کنٹرول طالبان کے ہاتھ آتا ہے تو وہ صوبائی دارلحکومت ’لشکر گاہ‘ سے افغان فوج کا رابطہ اور سپلائی لائن کاٹ سکتے ہیں۔ سنگین پوست کی پیداوار کا بھی بڑا مرکز ہے جس کا مطلب ہے طالبان کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ مجموعی طور پر صوبہ ہلمند میں سالانہ پانچ ارب ڈالر (پانچ سو ارب روپے سے زائد) کی پوست اور ہیروئن پیدا ہوتی ہے اور فی الوقت اس کا 70فیصد کرپٹ افغان ریاستی مشینری ہڑپ کر رہی ہے۔ طالبان کے حملے کی اہم وجہ اس وسیع کالے دھن میں اپنی حصہ داری بڑھانا ہے۔
امریکہ کی قائم کردہ ’افغان نیشنل آرمی‘ کا مورال بری طرح گر چکا ہے۔ عام فوجیوں کو مہینوں تنخواہ نہیں ملتی اور انتہائی ناقص خوراک دی جاتی ہے جبکہ افسران کے لئے فائیو سٹار کھانے آتے ہیں۔ نچلی سطح پر سپاہی بڑی تعداد میں بھگوڑے ہو رہے ہیں ۔کئی افسران طالبان کو اسلحے کی فروخت میں بھی ملوث ہیں۔ ’دل و دماغ جیتنے‘ کا نعرہ لگا کر کی جانے والی سامراجی جارحیت نے افغان عوام کے دل و دماغ کو مجروح ہی کیا ہے۔ 13 سال بعد نام نہاد آپریشن Enduring Freedom امریکی سامراج کے لئے تباہ کن ناکامی بن چکا ہے۔
برطانوی فوج کے سابقہ میجر جرنل جوناتھن شا کے بقول نیٹو افواج کے مسائل، وسائل کی قلت یا اسلحے کی نوعیت سے کہیں بڑھ کر ہیں اور ’’فوجی مداخلت کی حدود اس صورتحال سے عیاں ہوتی ہیں۔‘‘گارڈن سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’جب آپ یہ جانے بغیر کسی آمر کو ہٹاتے ہیں کہ اس کی جگہ کون لے گا، تو ایسا ہی ہوتاہے ۔ نیٹو کے انخلا کے بعد طالبان کو بڑھتا دیکھ کر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہو رہی۔ دور رس منصوبہ اب کیا ہے؟گھڑیال ہمارے پاس جبکہ وقت ان کے پاس ہے۔ جو کچھ ہم نے مسلط کیا تھا اب بکھر رہا ہے۔‘‘ اسی طرح افغانستان میں سابق برطانوی سفیر سر ولیم پاٹے کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے ان (افغان حکومت) سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ کابل کی حکومت ہلمند جیسے صوبوں پر کنٹرول کے لئے ہمیشہ ہاتھ پیر مارتی رہے گی۔ یہ خیال غلط تھا کہ اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغان فوج سب کچھ سنبھال لے گی۔‘‘
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں افغانستان کے استحکام سے متعلق ہونے والی’ہارٹس آف ایشیا‘ کانفرنس کے ایک ہفتے بعد طالبان نے یہ حملہ کر کے خطے کی حقیقی صورتحال کا ادراک کروایا ہے۔ کانفرنس کا اہم نکتہ سکیورٹی، مواصلات، تجارت ، سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کے ذریعے خطے کو جوڑنا تھا۔ شریک ہونے والے دس ممالک میں چین اور ہندوستان کے وزرا بھی شامل تھے۔ ’افغان سیٹلمنٹ‘ میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے اور نام نہاد عالمی کمیونٹی اسے تسلیم کرتی ہے۔ بہرحال اس طرح کی کانفرنسوں پر کی جانے والی ہوائی باتوں، سفارتی مصافحوں اور منافقانہ مسکراہٹوں کے پیچھے عزائم کچھ اور ہی ہوتے ہیں۔ یہ تمام قوتیں گدھوں کی طرح افغانستان کو نوچ رہی ہیں یا نوچنا چاہتی ہیں۔ طالبان کا یہ حملہ بھی ناگزیر طور پر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت اور پاکستان کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے درمیان نئے تضادات اور تنازعات کو جنم دے گا۔
حیرت انگیز طور پر کئی مہینوں پر مشتمل تازہ خانہ جنگی دسمبر میں داخل ہو رہی ہے لیکن افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ’’مذاکرات‘‘ کی باتیں اب بھی جاری ہیں۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی آپسی دھڑے بندیوں کے باوجود ان کے حملوں کی شدت کم نہیں ہوئی، بلکہ بڑھی ہی ہے۔ مذاکرات اور لڑائی، یا پھر لڑائی اور مذاکرات طالبان کی نئی پالیسی معلوم ہوتی ہے اور شاید انہوں نے امریکیوں اور افغان حکومت کی حکمت عملی سے ہی سیکھی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ریاستی پالیسی سے زیادہ بہتر طالبان اس کی نقالی کر رہے ہیں۔ طالبان کے حالیہ حملوں کے بعد افغان ریاست کے داخلی تضادات بھی بڑھیں گے۔ اس ریاست ایک بڑا حصہ پہلے ہی مذاکرات اور پاکستان سے تعلقات کی بہتری کے خلاف ہے۔ خفیہ آپریٹس بھی طالبان اور پاکستان کی طرف خاصے شکوک و شبہات رکھتا ہے۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستانی ریاست کے حقیقی پالیسی ساز بھی ایک طرف کابل سے تبادلہ خیال اور دوسری طرف ’’طالبان پر اثر و رسوخ‘‘ کا استعمال جاری رکھیں گے۔ ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کی پالیسی قصہ ماضی نہیں ہوئی۔
افغانستان کئی صدیوں سے مسلسل سامراجی حملوں، جنگوں، تباہی اور انتشار کا شکار چلا آرہا ہے۔ 1893ء میں برطانوی سامراج کی جانب سے کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کے عوام اس گریٹ گیم کے مختلف مراحل کا ایندھن بنے ہیں۔ 1978ء کا ثور انقلاب اس نظام کی بربادیوں سے نجات کی امید بنا تھا لیکن امریکی سامراج نے اسے کچلنے کے لئے پاکستانی اور خلیجی حکمرانوں کے ذریعے بنیاد پرستی کی جو آگ بھڑکائی تھی اس میں آج پورا خطہ جل رہا ہے۔ منشیات کی پیداوار اور تجارت کا نیٹ ورک بھی ڈالر جہاد کو فنانس کرنے کے لئے سی آئی اے نے ہی بچھایا تھا جسے بعد میں مقامی سرپرست میسر آگئے۔ آج ’’طالبان‘‘ سمیت اربوں ڈالر کے اس کاروبار میں بے شمار پراکسی گروہ اور ریاستی عناصر ملوث ہیں، اسی پیسے کی بنیاد پر دھڑے بندیاں ہوتی ہیں اور خونریزی کا بازار گرم ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں نے جس خونی کھیل کا آغاز کیا تھا، وہ آج کسی کے قابو میں نہیں رہا۔
1991ء کے بعد افغانستان میں بربادی بڑھی ہی ہے۔ امریکی سامراج کے 13 سالہ قبضے نے بھی ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت افغانستان میں کوئی آسودگی یا استحکام نہیں آسکتا۔ حالات زیادہ پیچیدہ اورپر انتشار ہی ہوئے ہیں اور ہوں گے۔پورا خطہ اور بالخصوص ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کے پشتون عوام نسلوں سے اس بحران کا شکار ہیں۔ ڈیورنڈ لائن ایک جعلی لکیر تھی جو تاریخ، ثقافت، معیشت اور اب بربادی کے بندھن توڑ سکی ہے نہ توڑ سکتی ہے۔ بنیاد پرستی آخری تجزئیے میں سامراج کی پیداوار ہے اور دونوں تاریک قوتوں نے اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو جو زخم دئیے ہیں ان کا انتقام سرمایہ داری کے خلاف انقلاب برپا کر کے ہی لیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ:

افغانستان: ’’گریٹ گیم‘‘ کی پیچیدگی

دہشت کی شہ رگ