’’جہاد‘‘، کالا دھن اور دہشت گردی

| تحریر: لال خان |

3 اگست کو راولپنڈی میں اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے بعد افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’منشیات کی پیداوار اور تجارت میں ملوث گروہ قومی سلامتی کے لئے دہشت گردوں کی طرح ہی خطرناک ہیں۔ منشیات کا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہو رہا ہے لہٰذا منشیات کا دھندہ کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔‘‘ 1978ء سے لے کر اب تک کسی آرمی چیف کا یہ پہلا بیان ہے جس میں براہ راست منشیات کے کالے دھن کے خلاف کاروائی کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ ایسی کوئی کاروائی ہوتی بھی ہے تو کامیابی کے امکانات ملکی معیشت میں کالے دھن کے وسیع حجم اور سیاست و ریاست میں اس کی گہری سرایت کے پیش نظر مخدوش ہی نظر آتے ہیں۔
1978ء میں پاکستان میں غیر دستاویزی(Undocumented) یا متوازی معیشت کا حجم 5فیصد سے بھی کم تھا۔ آج یہ حجم 73 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے اور اس متوازی معیشت کا بڑا حصہ منشیات، بھتہ خوری، کرپشن اور دوسرے جرائم کے کالے دھن پر مشتمل ہے۔ دوسرے الفاظ میں ناسور جسم سے زیادہ بڑا ہو چکا ہے اور اس کی جراحی سے یہ گلی سڑی سرمایہ دارانہ معیشت ہی دم توڑ دے گی۔ سرکاری معیشت اگر دو یا تین فیصد کی شرح سے نمو پاتی ہے تو کالی معیشت کی شرح نمو 10 فیصد ہے۔حقائق بہت واضح ہیں۔ یہ ملک چل ہی کالے دھن پر رہا ہے، اسی کالے دھن سے سیاست چلتی ہے، سرمایہ کاری ہوتی ہے، روزگار اور منڈی پیدا ہوتی ہے اور یہاں کی نیم مردہ سرمایہ داری رینگ رہی ہے۔ چنانچہ اس نظام میں رہتے ہوئے معیشت کی تطہیر اور کالے دھن سے نجات ممکنات میں سے نہیں ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ یہ کالا دھن آ یا کہاں سے ہے اور چند دہائیوں میں سرکاری یا سفید معیشت سے بھی بڑا کیسے ہو گیا ہے؟ اسے جنم دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اسی فوج کا چیف آف سٹاف جنرل ضیاالحق ہی تھا۔ ہیروئن کی تیاری اور ترسیل کا نسخہ افغانستان کے ڈالر جہاد کو فنانس کرنے کے لئے ضیا آمریت کو امریکی سامراج نے دیا تھا۔ یہ سی آئی اے کا پرانا طریقہ کار ہے جس کا استعمال لاطینی امریکہ اور ویت نام میں کیا جاتا رہا ہے۔ مئی 2012ء میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی کو بیان دیتے ہوئے برملا کہا تھا کہ ’’جن لوگوں سے ہم آج لڑ رہے ہیں ان کی فنڈنگ ہم نے ہی کی تھی۔ یہ ہمارا ہی منصوبہ تھا کہ سوویت یونین کے خلاف آئی ایس آئی اور سعودی عرب کی مدد سے یہ ’مجاہدین‘ پیدا کئے جائیں۔‘‘
سرمایہ داری کے خلاف اٹھنے والی انقلابی تحریکوں اور سیاسی رجحانات کو براہ راست یا بالواسطہ فوجی جارحیت کے ذریعے کچلنے کی پالیسی امریکی سامراج نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی شروع کر دی تھی۔ اس مقصد کے لئے مختلف فاشسٹ قوتوں پر بے پناہ دولت نچھاور کی گئی اور ان رجعتی عناصر کی ’خود کارفنانسنگ‘ کے لئے جرائم کے کاروبار استوار کئے گئے۔ افغانستان سے پیشتر ویتنام، نکاراگوا، کمبوڈیا اور ہانڈراس وغیرہ میں منشیات کے نیٹ ورک سی آئی اے نے بچھائے تھے جن سے امریکی جرنیلوں نے بھی خوب مال بنایااور ان کے کٹھ پتلی پراکسی گروہ بھی پروان چڑھتے رہے۔
’’مجاہدین‘‘ کے ہاتھوں سوویت یونین کی شکست اور انہدام کا شوشہ بھی بہت چھوڑا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کا انہدام سٹالن اسٹ افسر شاہی کی مارکسزم سے متضاد پالیسیوں سے جنم لینے والے داخلی سیاسی اور معاشی تضادات کا نتیجہ تھا۔ بالشویک انقلاب کے بانیوں نے ہی 1991ء کے واقعات کی مشروط پیشین گوئی 70سال قبل کی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فروری 1989ء میں سوویت فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے تین سال بعد اور سوویت یونین کے انہدام کے ایک سال بعد تک کابل میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی زیر قیادت PDPA کی حکومت قائم رہی۔
اپنا کام نکل جانے کے بعد 1980ء کی دہائی کے اواخر تک امریکیوں کی دلچسپی اس خطے میں بہت محدود ہو گئی لیکن ان کا بچھایا ہوا کالے دھن کا نیٹ ورک پروان چڑھتا رہا۔ لندن سکول آف اکنامکس کے شعبہ سیاسی معاشیات کے پروفیسر فریڈ ہائی ڈے نے 1999ء میں ایک مضمون میں لکھا ’’افغانستان اور پاکستان سے منشیات کے کاروبار کا حجم 80 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو سعودی عرب کے تیل کی آمدن سے زیادہ ہے۔‘‘اس کالے دھن کی حصہ داری پر ہونے والی خونریز خانہ جنگی میں مجاہدین کے مختلف دھڑے برسر پیکار رہے جنہوں نے ایک وقت میں ’’مشرق کے پیرس‘‘ کہلائے جانے والے کابل کو کھنڈر بنا ڈالا۔
1995ء میں طالبان بھی امریکہ کی مالی امداد سے ہی برسر اقتدار لائے گئے جنہوں نے ان کھنڈرات کو’ اسلامی امارات‘بنانے کا اعلان کیا۔ اس حکومت کو سب سے پہلے پاکستان نے ہی تسلیم کیا کیونکہ وہ بنوائی ہی پاکستان کی ریاست نے تھی۔ المیہ یہ ہے یہ ساری کاروائی ’’لبرل‘‘ اور ’’سیکولر‘‘بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہوئی۔ منشیات پر مبنی ان خونریزیوں نے جہاں افغانستان کو برباد کیا وہاں پاکستان بھلا کیسے محفوظ رہ سکتا تھا؟ یہاں بھی دہشت گردی کی آگ آج تک بھڑک رہی ہے۔
یہ کالا دھن صرف معیشت پر ہی غالب نہیں ہے بلکہ ریاست، سیاست اور صحافت تک میں سرایت کر چکا ہے۔ رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں سمیت زیادہ تر کاروبار اسی کالے دھن پر چلتے ہیں۔ رشوت ستانی اور کرپشن اس کالی معیشت کے ستون ہیں اور ہر ادارہ اس کے آگے سربسجود ہے۔ حکمران معیشت دان ان حقائق کو تسلیم نہیں کر سکتے لیکن جانتے سب ہیں کہ معیشت جس دولت کے سہارے رینگ رہی ہے اس کا ماخذ کیا ہے۔
کالے دھن کے آقا ہر پارٹی اور لیڈر کو خرید لیتے ہیں، سیکولر ہو یا قدامت پرست۔ سرمایہ داری سے بغاوت کا نظریہ نہ رکھنے والا ہر فرد زر کے بازار میں کہیں نہ کہیں جھک جاتا ہے، بک جاتا ہے۔ جرائم پر مبنی یہ معیشت جس معاشرے کو جنم دیتی ہے اس کی اخلاقیات بھلا کیا ہوسکتی ہیں؟ منافقت اور دھوکہ دہی سماج کی رگوں میں اسی لئے رچ بس چکے ہیں۔
لیکن جرائم اور بدعنوانی کی اس سیاہ معیشت سے بالادست اور کسی حد تک درمیانے طبقے کے افراد ہی مستفید ہوتے ہیں۔ محنت کشوں کے لئے یہاں بھی ذلت اور محرومی ہی ہے، دیہاڑی دار روزگار ملتا ہے جس میں شرمناک اجرت پر دن رات کام کرایا جاتا ہے۔ علاج یا پنشن کی سہولیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کالے دھن کو ایسی کاروباری سرگرمیوں میں انویسٹ کیا جاتا ہے جو تیز ترین اور بلند شرح منافع دے سکیں لیکن یہ سب چونکہ قانونی نہیں ہو سکتا لہٰذا اسے چلانے کے لئے غنڈی گردی کا استعمال لازم ہوتا ہے۔ غنڈہ گردی بس کے اڈے یا پلاٹ پر قبضے کے لئے ہو یا مذہبی دہشت گردی کی شکل میں، اس کا سب سے اہم پہلو ’’دہشت‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اسی کی دھاک بیٹھتی ہے جو سب سے زیادہ سفاک اور بے رحم ہوتا ہے۔
جو ’’لبرل‘‘ خواتین و حضرات سمجھتے ہیں کہ امریکی سامراج یا ریاستی کاروائیوں سے اس دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے، وہ اپنی کج فہمی اور جہالت کا ہی مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس معیشت میں کالا دھن رچ بس گیا ہو اس میں چند گروہوں کو کچلا تو جا سکتا ہے لیکن ناسور کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ ایک ٹارگٹ کلر جب مارا جاتا ہے تو کئی ٹارگٹ کلرز غربت اور سماجی بیگانگی سے جنم لے رہے ہوتے ہیں۔
بورژوا نقطہ نظر سے بھی موجودہ حالات سطحی کانٹ چھانٹ والے کسی فوجی آپریشن یا نام نہاد ’’ایکشن پلان‘‘ کی بجائے گہری جراحی کے متقاضی ہیں جس میں کالے دھن کے ناسور کے ساتھ سیاست اور ریاست کے ان اعضا کو بھی کاٹنا ہو گا جس میں اس کی جڑیں پیوست ہو چکی ہیں۔کہیں مذہب کے نام پر قبضے اور تعمیرات کروا کے اس کالے دھن کے راستے استوار کئے جاتے ہیں تو کہیں سیکولرازم اور ’’جمہوریت‘‘ کی آڑ میں اس کے غلبے کو قائم رکھا جاتا ہے۔ راحیل شریف کی جو ساکھ میڈیا نے بنا دی ہے اور فوج کے پاس جتنے اختیارات اس جمہوریت میں ہیں، اس کی مثال مارشل لاؤں میں بھی نہیں ملتی۔ لیکن جس نظام کو فوج کے آخری سہارے کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ تاریخی طور پر متروک اور معاشی طور پر کنگال ہو کر سامراجی امداد اور کالے دھن کے ’سٹیرائیڈز‘ کے سہارے سانس لے رہا ہے۔محنت کش عوام اس میں اجڑ رہے ہیں۔ ان کی نجات کے لئے کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ ان کو خود اٹھنا ہو گا اور جینا ہے تو اس نظام کو اکھاڑنے کے لئے لڑنا ہو گا!

متعلقہ:

فوجی عدالتیں: دہشت سے وحشت کا علاج؟

کہاں سے آتی ہے یہ کمک؟

آستین کے سانپ!

دہشت کی شہ رگ

سیاست اور دہشت کے کاروبار