پیپلز پارٹی: یہاں سے کہاں؟

[تحریر: لال خان]
2013ء کے انتخابات کے نتائج کے بعد پیپلز پارٹی کی بقا اور مستقبل کے بارے میں کھل کر سامنے آنے والی بحث نے پارٹی کے اندر اور باہر بہت شدت اختیار کرلی ہے۔ یہ انتخابی کریش طویل عرصے سے پارٹی قیادت کے نظریاتی انحراف، سیاسی زوال پزیری اور موقع پرستی کا نتیجہ تھا۔ پارٹی کے نظریاتی کارکنان لمبے عرصے سے اذیت ناک کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اب پارٹی چیئرمین اور کو چیئرمین کے درمیان تضادات کی ’’افواہوں‘‘ نے اس بحث کو مزیدگرم کردیا ہے۔
زرداری نے پیپلزپارٹی کی طبقاتی شناخت اور نظریاتی اساس کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پارٹی پر مسلط قیادت اوروسیع تر عوام کے درمیان خلیج بہت وسیع ہو چکی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بہت حد تک ان کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔ سرمایہ دارانہ سیاست میں پیوست پارٹی کے بالائی ڈھانچے میں ضیا باقیات سے لے کر سابقہ بائیں بازو کے بھگوڑے، کرپٹ ٹریڈیونین لیڈر، سرمایہ دار اور جاگیردار بھی شامل ہیں اور محنت کش طبقے کے وہ افراد بھی جو اپنے ہی طبقے سے غداری کرکے حکمران طبقے کے کاسہ لیس بن چکے ہیں۔ اس ’’ڈھانچے‘‘ کی نفسیات اور مفادپرستانہ رویے اوپر کی جانب غلامانہ ہیں اور نیچے کی طرف جابرانہ۔ بے نظیر بھٹو نے ’’مصالحت‘‘ (Reconcilation) کی جس پالیسی کا آغاز کیا تھا، زرداری نے پوری ’’دلجمعی‘‘ سے اس پر عمل کیا ہے۔ بھٹو نے سوشلزم کے بغیر جمہوریت کو فریب قرار دیا تھا لیکن ’’ مصالحت‘‘ کی یہ پالیسی ریاست کی پروردہ تمام پارٹیوں سے صلح کرکے ’’جمہوریت‘‘ کو فروغ دینے کے لئے ہے۔ اس کی اساس طبقاتی تفریق، کشمکش اور جدوجہد کو زائل کرنے پر مبنی ہے۔ آخری تجزیے میں اس کا مقصد پارٹی سے امیدیں وابستہ کرنے والے کروڑوں محنت کشوں کو حکمران طبقے کے آگے سرنگوں کرکے اس استحصالی نظام کی اطاعت پر مجبور کرنا ہے۔
یہ کوئی نئی پالیسی نہیں بلکہ دو صدیوں سے مزدورتحریک کی اصلاح پسند قیادت کا یہی کردار رہا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی اصلاح پسندانہ پالیسیوں کے انچارج بنے بیٹھے سابقہ بائیں بازو کے خود ساختہ ’’نظریہ دان‘‘ یورپ کی کلاسیکی سوشل ڈیموکریسی سے زیادہ مارگریٹ تھیچر کے پیروکار ہیں جو جدید تاریخ میں دائیں بازو کی جارحیت اور مزدور دشمنی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً سٹیل مل اور دوسرے اداروں میں مزدوروں کو ’’شیئرز‘‘ دے کر مالک بنانے کا مکروہ فریب دینا۔ ’’شیئرز‘‘ کی قیمت مالیاتی سرمائے کے مگر مچھ جب چاہیں گرا دیں، جب چاہیں بڑھا دیں۔ سٹاک مارکیٹ کی سٹہ بازی میں لاکھوں کے شیئرز کوڑیوں کے داموں خرید کر ان کو کروڑوں میں بدل دینا ان جگادریوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مزدوروں سے ان کے طبقاتی شناخت چھین لینے کی یہ زہریلی پالیسی اس ملک میں طبقاتی جدوجہد پر اتنا بڑا وار ہے جو ضیاء الحق جیسی وحشیانہ آمریت بھی نہیں کرسکی تھی۔ اور پارٹی قیادت کے نمائندے اسے ’’کارنامہ‘‘ بنا کر پیش کرتے نہیں تھکتے!
پارٹی میں سے نظریات کوتقریباً خارج کردیا گیا ہے۔ کسی بڑے لیڈر سے پوچھا جائے کہ پیپلز پارٹی کے اصل نظریات کیا ہیں تو اسکے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہوتا۔ پارٹی پر براجمان ’’اعلیٰ قیادت‘‘ کے کسی فرد نے شاید ہی1967ء کی تاسیسی دستاویزات پڑھی ہونگی۔ انہیں ضرورت ہی کیا ہے؟ پارٹی میں سیاسی سرگرمیاں کئی سالوں سے ’’معطل‘‘ ہیں۔ اب صرف 5 جنوری، 4 اپریل، 21 جون، 18 اکتوبر، 30 نومبر اور 27 دسمبر کو سوگ منایا جاتا ہے یا سالگراؤں کیک کاٹے جاتے ہیں۔ بھٹو کوعوامی لیڈر سے زیادہ ’’پیر فقیر‘‘ بنا دیا گیاہے۔ پارٹی کو شخصیت پرستی کے حصار میں جکڑ کر کسی نظریاتی بحث یا رائے کی گنجائش ہی ختم کردی گئی ہے۔ نظریات کی بات اگر ہو بھی جائے تو قیادت کے حواری اس کو توڑ پھوڑ کر، مجروح کرکے اپنی موقع پرستی کا جواز بنا دیتے ہیں۔ شخصیات کا ’’استعمال‘‘ بھی بڑی عیاری سے اسی مفادپرستی کے مطابق کیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اگرچہ بے نظیر کی تصویر کے پیچھے رکھ کر مبہم کیا جاتا ہے لیکن چونکہ بھٹو کے بغیر گزارا نہیں ہے اس لیے ان کی زندگی کے صرف وہی پہلواجاگر کئے جاتے ہیں جو موجودہ قیادت کے لیے زیادہ مضر ثابت نہ ہوسکیں۔ بھٹو کی 30ویں برسی کے موقع پر ان کے قریبی ساتھی اور دوست عبدالحفیظ پیرزادہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’بھٹو کے زوال کی بنیادی وجہ، دو متضاد نظریات کو جوڑنے کی کوشش تھی: سوشلزم اور پاکستانی نیشنل ازم۔ ‘‘یہاں سوشلزم کا ذکر نہیں کیا جاتا تھا جس نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات ملک کی سب سے بڑی پارٹی بنا دیا تھا۔ جبکہ ایٹمی پروگرام، اسلامی سربراہی کانفرنس اور ریاستی اداروں کو مضبوط کرنے کی پالیسیوں کو خوب اچھالا جاتا ہے۔
اس سارے مفاد پرستانہ کھیل سے محنت کش عوام سے پارٹی کا ناطہ اپنی کمزور ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اگر ہم دھاندلی کے الزامات کو ذرابالائے طاق رکھ کر جائزہ لیں، کیونکہ 1970ء کے انتخابات کے بعد یہاں ہر الیکشن ہی ’’بھاری دھاندلی‘‘ سے داغدار ہے، تو جہاں باقی صوبوں میں پیپلزپارٹی کو تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے وہاں سندھ میں انہی ہتھکنڈوں اور طریقوں سے الیکشن جیتے گئے ہیں جن کا استعمال پنجاب اور دوسرے صوبوں میں دائیں بازو کی روایتی پارٹیاں کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا طبقہ، کردار، سوچ اور طریقہ کار دائیں بازو کی پارٹیوں سے مختلف تو نہیں تھا۔ پانچ سالہ حکومت کے دوران پارٹی نے جو حشر محنت کش عوام کا کیا اس کے بعد مایوسی کی کیفیت میں پارٹی کے روایتی ووٹر نے فوری مالی مفادات کے لیے دوسرے امیدواروں کو ووٹ دیئے یا پھر ووٹ ڈالا ہی نہیں۔
اب زرداری اور بلاول کے ’’اختلافات‘‘ کی افواہ کے گرد مختلف سازشی تھیوریاں اور قیاص آرائیاں جاری ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کچھ کارکنان بلاول سے ’’ترقی پسندی ‘‘ کی امیدیں وابستہ کر رہے ہیں۔ مایوسی کے اندھیرے میں تیر چلانے والی بات ہے۔ سیاست میں ’’انٹری‘‘ کے بعد سے بلاول کی جانب سے ’’سوشلزم‘‘ یا انقلابی نظریات کی حمایت میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیاہے۔ مروجہ سیاست اور نظام کے اندر ہی پارٹی کی مرتی ہوئی ساکھ کو ’’لبرل ازم‘‘ کا نحیف سا تڑکہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری طرف پارٹی کا موجودہ’’تنظیمی‘‘ ڈھانچہ پاکستان کے ریاستی اداروں سے بھی زیادہ گل سڑ چکا ہے جس میں اصلاح کی گنجائش تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ پارٹی کی تعمیر نومحض تنظیمی طریقہ کارسے ہو بھی نہیں سکتی۔ نظریاتی بنیادوں کے بغیر تنظیمی ڈھانچے کبھی تعمیر نہیں ہوسکتے۔
سوال پارٹی کی موجودہ قیادت اور بالائی ڈھانچے کا نہیں ہے۔ ان کا کردار مکمل طور پر بے نقاب ہوچکا ہے۔ آج پیپلز پارٹی اگر حاوی سیاست کے افق پر موجود ہے تو اس کی واحد وجہ بائیں جانب کسی دوسرے سیاسی رجحان کی عدم موجودگی ہے۔ علاوہ ازیں آئندہ کسی تحریک کو ’’قابو‘‘ کرنے کے لیے سامراج اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ اس کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ پارٹی اس قابل رہی ہے؟ ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن سیاسی افق کے بائیں جانب موجود ہونے کا مطلب ’’بائیں بازو کی قوت‘‘ ہونا ہرگز نہیں ہے۔
محنت کش طبقے کی کسی وسیع اور بڑی تحریک کے بغیر انقلابی سوشلزم پر مبنی کسی متبادل سیاسی قوت کی تعمیر کے امکانات مخدو ش ہیں۔ اس لیے یہ عارضی کیفیت کسی حتمی تناظر اور لائحہ عمل کو مرتب کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس وقت تمام رائج الوقت سیاست اور اس کی تمام سیاسی پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ عمران خان سے لے کر نواز لیگ اور اسلامی پارٹیوں سے لے کر قومی، فرقہ وارانہ اور لسانی گروہی پارٹیوں تک… سب کے سب مکمل طور پر دائیں بازو کے سیاسی رجحان ہیں۔ بائیں بازو کی پارٹی کے طور پر پیپلز پارٹی کے وجود کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش اس کی قیادت نے کی ہے۔ ماضی کی روایات کا بوجھ عوام کے شعور پر ہمالیہ کی طرح ہے لیکن پارٹی کی موجودہ قیادت سے محنت کشوں کو کوئی امید ہے نہ ان پر کوئی اعتبار۔ سیاسی و سماجی جمود کی اس کی دھند میں پیپلزپارٹی کا کردار اور مستقبل مبہم ہو کر رہ گیا ہے۔
محنت کشوں کی بے لوث حمایت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پہلے پارٹی کے اندر انقلاب برپا کرنا پڑے گا۔ یہ امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک تحریک ابھرنے کی صورت میں عوام پارٹی کی جانب راغب ہوں گے۔ لیکن تحریک کا بھونچال موجودہ قیادت کو تقویت دینے کی بجائے درہم برہم بھی کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس ملک کی انقلابی قیادت کا تعین پارٹی کے اندر کے معرکے میں ہوگا۔ بصورت دیگر ایک نئی انقلابی پارٹی تحریک میں سے جنم لے گی۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کا مستقبل اندھیر ہے۔ یہ اندھیرا انہوں نے خود انقلابی سوشلزم پر مبنی پارٹی منشور کا چراغ گل کرکے معاشرے اور پارٹی پر طاری کیا ہے۔

متعلقہ:

27دسمبر کے زخم کا مرہم؟

30نومبرکے جنم کا رشتہ

47واں یوم تاسیس: یہ سوشلسٹ جنم مر نہیں سکتا!

نظریات کی دھوکہ دہی!

پیپلز پارٹی کا احیا: نظریات یا شخصیات؟